چالیس فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
- Admin
- Sep 25, 2021
حضرت سیِدنا ابو درداءرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم نور مجسم رسول مکرم سراپا جودوکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم سے عرض کی گئی کہ: اُس علم کی حد کیا ہے جہاں انسان پہنچے تو عالم ہو جائے؟ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :
حضرت سیِدنا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ القَوِیاس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
’’ علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے مراد و مقصود لوگوں تک چالیس احادیث کا پہنچانا ہے۔چاہے وہ اسے یاد نہ بھی ہوں اور ان کا معنی بھی اسے معلوم نہ ہو۔ ‘‘
(اشعۃ اللمعات، ج۱، ص۱۸۶)
مفسر شہیر حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ اِس حدیث کے بہت پہلو ہیں، چالیس حدیثیں یاد کر کے مسلمان کو سنانا ، چھاپ کر ان میں تقسیم کرنا، ترجمہ یا شرح کر کے لوگوں کو سمجھانا ، راوِیوں سے سن کر کتابی شکل میں جمع کرنا سب ہی اِس میں داخل ہیں یعنی جو کسی طرح دینی مسائل کی چالیس حدیثیں میری اُمّت تک پہنچادے تو قیامت میں اس کا حَشْر علمائے دین کے زمرے میں ہو گا اور میں اُس کی خُصُوصی شفاعت اور اس کے ایمان اور تقوے کی خصوصی گواہی دوں گا ورنہ عُمومی شفاعت اور گواہی تو ہر مسلمان کو نصیب ہو گی۔
اِسی حدیث کی بِنا پر قریبًا تمام محدثین نے جہاں حدیثوں کے دفتر لکھے وہاں علیحدہ چِہَل حدیث بھی جمع فرمائیں۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۱، ص۲۲۱)
حضرتِ سیِدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہُ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے :
یعنی بروز قیامت لوگوں میں میرے قریب تروہ ہوگا، جس نے دُنیا میں مجھ پر زیادہ درود پاک پڑھے ہونگے۔
یعنی قیامت کے دن سب سے آرام میں وہ ہو گا جو رحمت عالم ، نور مجسم صلی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ رہے اور رحمت عالم ، نور مجسم صلی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہمراہی نصیب ہونے کا ذریعہ درود شریف کی کثرت ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ درود پاک بہترین نیکی ہے کہ تمام نیکیوں سے جنت ملتی ہے اور اس (یعنی درود پاک ) سے بزمِ جنت کے دولہا رحمت عالم ، نور مجسم صلی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۲، ص۱۰۰)
دنیا میں درود شریف کی کثرت عقیدے کی مضبوطی ، نیت کے خلوص، محبت کی سچائی اورعبادت کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے۔
(فیض القدیر، تحت الحدیث۲۲۴۹، ج۲، ص۵۶۰)
لہٰذا ! ہمیں بھی کثرت سے دُرُود شریف پڑھنا چاہئے ۔
چند بزرگوں کے اقوال پیش کئے جارہے ہیں۔ آپ کسی بھی ایک بزرگ کے بتائے ہوئے عدد کو معمول بنا لیں گے تو ان شاء اللّٰہ عزوجل آپ کا شمار کثرت سے دُرُود شریف پڑھنے والوں میں ہو جائے گا اور وہ تمام برکات و ثمرات حاصل ہو جائیں گے جن کا احادیث مبارکہ میں تذکرہ ہے۔
حضرت سیِدناشیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کثرت درود شریف کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’روزانہ کم از کم1000مرتبہ درود شریف ضرور پڑھیں ورنہ 500 پر اکتفا کریں۔ بعض بزرگوں نے روزانہ300 اور بعض نے نماز فجر و عصر کے بعد دو دو سو مرتبہ پڑھنے کو فرمایا ہے اور کچھ سوتے وقت بھی پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ ‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مزید فرماتے ہیں:’’روزانہ کم از کم 100 مرتبہ درود شریف ضرور پڑھنا چاہئے ۔ ‘‘ پھر مزید فرماتے ہیں : ’’ بعض دُرُود شریف کے ایسے صیغے ہیں ( مثلاً صَلَّی اللہ عَلَیہِ و سلَّم ) جن کے پڑھنے سے1000 کا عدد بآسانی اور جلد پورا ہو جاتا ہے ۔ اُسی کو وظیفہ بنا لیا جائے اور ویسے بھی جو کثرت سے دُرُود پاک پڑھنے کا عادی ہوتا ہے اُس پر وہ آسان ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ جو عاشق رسول ہوتا ہے اُسے دُرُودو سلام پڑھنے سے وہ لذّت و شیرینی حاصل ہوتی ہے جو اس کی رُوح کو تقویَّت پہنچاتی ہے۔
( جذب القلوب (مترجم) ، ص۳۲۸ ، ملخّصًا)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:
یعنی مجھ پر دُرُود شریف پڑھو، اﷲ تعالٰی تم پر رحمت بھیجے گا۔
(الکامل في ضعفاء الرجال، رقم الترجمۃ ۱۱۴۱، ج۵، ص۵۰۵)
صلاۃ کے معنی ہیں رحمت یا طلب رحمت، جب اس کا فاعل (یعنی کرنے والا) ربّ (عَزَّوَجَلَّ) ہو تو (صَلَاۃ) بمعنی رحمت ہوتی ہے اور فاعل جب بندے ہوں تو بمعنی طلبِ رحمت۔ اسلام میں ایک نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ہے۔خیال رہے کہ بندہ اپنی حیثیت کے لائق درود شریف پڑھتا ہے مگر رب تعالیٰ اپنی شان کے لائق اس پر رحمتیں اُتارتا ہے جو بندے کے خیال وگمان سے وَرَاء (یعنی بُلند) ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۲، ص۹۷، ۹۹)
حضرتِ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے:
یعنی جس نے مجھ پر ایک بار دُرُود پاک پڑھا،ﷲ تعالیٰ اُس پر دس رحمتیں بھیجے گا اور اس کے دس گناہ معاف کئے جائیں گے اور اس کے دس دَرجے بلند کئے جائیں گے ۔ (مشکٰوۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، الحدیث۹۲۲، ج۱، ص۱۸۹)
معلوم ہوا کہ ایک دُرُود پاک میں تین فائدے ہیں۔ دس رحمتیں ،دس گناہوں کی معافی اور دس دَرجوں کی بُلندی ۔
(مراٰۃ المناجیح، کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ علی النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ج۲، ص۱۰۰)
امیر المومنین حضرتِ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہُ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِقلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
یعنی اَعمال کا دارومدا ر نیتوں پر ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی، الحدیث۱، ص۱)
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اَعمال کا ثواب نیت پر ہی ہے ، بغیر نیت کسی عمل پر ثواب کا اِسْتِحْقَاق (یعنی حق) نہیں ۔اَعمال عمل کی جمع ہے اور اس کا اِطلاق اعضاء، زبان اور دل تینوں کے اَفعال پر ہوتا ہے اور یہاں اعمال سے مراد اَعمالِ صَالِحہ (یعنی نیک اعمال) اور مُبَاح (یعنی جائز) اَفعال ہیں۔اورنیت لُغوی طورپردل کے پختہ اِرادے کو کہتے ہیں اور شَرْعاً عبادت کے اِرادے کو نیت کہا جاتا ہے۔ عبادات کی دو قسمیں ہیں :
جیسے نماز ، روزہ کہ ان سے مقصود حصولِ ثواب ہے انہیں اگر بغیر نیت ادا کیا جائے تو یہ صحیح نہ ہوں گے اس لئے کہ ان سے مقصود ثواب تھا اور جب ثواب مَفْقُود ہو گیا تو اس کی وجہ سے اصل شے ہی ادا نہ ہوگی ۔
وہ جو دوسری عبادتوں کے لئے ذریعہ ہوں جیسے نماز کے لئے چلنا ، وضو ، غسل وغیرہ ۔ان عباداتِ غیرمقصودہ کو اگر کوئی نیت ِ عبادت کے ساتھ کرے گا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر بلانیّت کرے گا تو ثواب نہیں ملے گا مگر ان کا ذریعہ یا وسیلہ بننا اب بھی درست ہوگا اور ان سے نماز صحیح ہوجائے گی ۔
(ماخوذ از نزھۃالقاری شرح صحیح البخاری ، ج۱، ص۲۲۶)
ایک عمل میں جتنی نیّتیں ہوں گی اتنی نیکیوں کا ثواب ملے گا، مثلاًمحتاج قرابت دار کی مدد کرنے میں اگر نیت فقط لِوَجْہِ اللّٰہ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ) دینے کی ہوگی تو ایک نیت کا ثواب پائے گا اور اگر صلۂ رحمی کی نیّت بھی کرے گا تو دوہراثواب پائے گا۔ (اشعۃ اللمعات، ج۱، ص۳۶) اسی طرح مسجد میں نماز کے لئے جانابھی ایک عمل ہے اس میں بہت سی نیّتیں کی جاسکتی ہیں ، امامِ اہلسنّت الشاہ مولانا احمدرضاخانؒ نے فتاویٰ رضویہ جلد5صفحہ673 میں اس کے لئے چالیس نیتیں بیان کیں اور فرمایا:
بے شک جو علم نیّت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لئے کئی کئی نیکیاں کرسکتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ، ج۵، ص۶۷۳) بلکہ مباح کاموں میں بھی اچھی نیت کرنے سے ثواب ملے گا، مثلاً خوشبو لگانے میں اتباعِ سنت، تعظیمِ مسجد ، فرحتِ دماغ اور اپنے اسلامی بھائیوں سےناپسندیدہ بُودور کرنے کی نیّتیں ہوں تو ہر نیّت کاالگ ثواب ہوگا۔ (اشعۃاللمعات، ج ۱، ص۳۷)
حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ دمشق میں مقیم تھے اور حضرت سیِدنا امیر معاویہ رضی اللہُ تعالٰی عنہ کی تیار کردہ مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ ان کے دل میں خیال آیا کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ مجھے اس مسجد کا مُتَوَلِّی (یعنی انتظام سنبھالنے والا) بنا دیا جائے ۔ چنانچہ آپ نے اعتکاف میں اضافہ کردیا اور اتنی کثرت سے نمازیں پڑھیں کہ ہمہ وقت نماز میں مشغول دیکھے جاتے۔ لیکن کسی نے آپ کی طرف تَوَجُّہ نہیں کی۔ ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ ایک مرتبہ آپ مسجد سے باہر آئے تو ندائے غیبی آئی : اے مالک ! تجھے اب توبہ کرنی چاہیے۔ یہ سن کر آپ کو ایک سال تک اپنی خود غرضانہ عبادت پر شدید رنج و شرمندگی ہوئی اور آپ اپنے قلب کو رِیا سے خالی کر کے خلوصِ نیت کے ساتھ ساری رات عبادت میں مشغول رہے ۔
صبح کے وقت مسجد کے دروازے پر لوگوں کاایک مجمع موجود تھا، اور لوگ آپس میں کہہ رہے تھے کہ’'مسجد کا انتظام ٹھیک نہیں ہے لہذا اسی شخص کو مُتَوَلِّی بنا دیا جائے اور تمام انتظامی امور اس کے سپرد کر دیے جائیں ۔‘‘سارا مجمع اس بات پر متفق ہو کر آپؒ کے پاس پہنچا اور آپ کے نماز سے فارغ ہونے کے بعدانہوں نے آپ سے عرض کی کہ’’ہم باہمی طور پر کئے گئے متفقہ فیصلے سے آپ کو مسجد کا مُتَوَلِّی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ آپؒ نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی :’’اے اللّٰہ ! میں ایک سال تک ریا کارانہ عبادت میں اس لیے مشغول رہا کہ مجھے مسجد کی تَولِیَت حاصل ہو جائے مگر ایسا نہ ہوا اب جبکہ میں صِدْقِ دل سے تیری عبادت میں مشغول ہوا تو تمام لوگ مجھے مُتَوَلِّی بنانے آ پہنچے اور میرے اوپر یہ بار ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن میں
تیر ی عظمت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نہ تو اب تولیت قبول کروں گا اور نہ مسجد سے باہر نکلوں گا ۔‘‘یہ کہہ کر پھر عبادت میں مشغول ہو گئے ۔
(تذکر ۃ الاولیاء، باب چہارم، ذکر مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہ تعَالٰی عَلَیْہ ، ج ۱ ، ص ۴۸ ، ۴۹)
حضرت سیِّدُنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے:
یعنی مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہترہے۔
(المعجم الکبیر للطبراني، الحدیث: ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵)
امیرُالمومِنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہٗ الْکَرِیۡمنے ارشاد فرمایا : ’’ بندے کو اچھی نیّت پر وہ انعامات دیئے جاتے ہیں جو اچھے عمل پر بھی نہیں دیئے جاتے کیونکہ نیّت میں ریاکاری نہیں ہوتی۔
(الزّواجر عن اقتراف الکبائر، الکبیرۃ الثانیۃ، باب الشرک الاصغر وھو الریاء، ج۱، ص۷۵)
بنی اسرائیل کا ایک شخص قحط سالی میں ریت کے ایک ٹیلے کے پاس سے گزرا ۔ اس نے دل میں سوچا کہ اگر یہ ریت غلہ ہوتی تو میں اسے لوگوں میں تقسیم کردیتا ۔ اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے نبی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اُس سے فرمائیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کر لیا اور تیری اچھی نیت کے بدلے میں اس ٹیلے کے بقدر غلہ صدقہ کرنے کا ثواب دیا۔
(احیاء العلوم، کتاب النیۃ والاخلاص، ج۵، ص۸۸)
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے:
یعنی علم حاصل کرواگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔
(شعب الإیمان، باب في طلب العلم، الحدیث: ۱۶۶۳، ج۲، ص۲۵۴)
اِس (حدیثِ پاک) سے علمِ دین کی بے انتہا اہمیت ثابت ہو تی ہے کہ اُس زمانہ میں جبکہ ہوائی جہاز، ریل اور موٹر نہیں تھے، عرب سے ملکِ چین پہنچنا کتنا مشکل کام تھا مگر رحمت عالم ، نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرما رہے ہیں کہ اگرچہ تم کو عرب سے ملک چین جانا پڑے لیکن علم دین ضرور حاصل کرو اس سے غفلت ہر گز نہ برتو۔
(علم اور علماء ، ص۳۳)
حضرتِ سیِّدُنا کثیر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں حضرتِ سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا تو ایک آدمی نے آکر کہا:’’ اے ابودرداء! بے شک میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر مدینہ طیبہ سے یہ سن کر آیا ہوں کہ آپ کے پاس کوئی حدیث ہے جسے آپ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں اور میں کسی دوسرے کام کے لیے نہیں آیا ہوں۔ ‘‘حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم (دین) حاصل کرنے کے لیے سفر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلاتا ہے اور طالب علم کی رضا حاصل کرنے کے لیے فرشتے ا پنے پروں کو بچھا دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی کے اندر عالم کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں اورعالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت ستاروں پر، اور علماء انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث و جانشین ہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام کا ترکہ دینار و درہم نہیں ہیں۔ انہوں نے وَرَاثَت میں صرف علم چھوڑا ہے تو جس نے اسے حاصل کیا اس نے پورا حصہ پایا۔ ‘‘
(سنن ابوداوٗد، کتاب العلم ، باب الحث علی طلب العلم، الحدیث ۳۶۴۱، ج۳، ص۴۴۴)
حضرتِ سیِّدُنا عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
یعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ ‘‘ (صحیح البخاري، کتاب فضائل القرآن، باب خیرکم ...الخ، الحدیث۵۰۲۷، ج۳، ص۴۱۰)
قراٰن مجید سیکھنے سکھانے میں بہت وُسْعَت ہے، بچوں کو قراٰن مجید کے ہجے سِکھانا ، قاری صاحبان کا تَجْوِید سیکھنا سکھانا، علماء کرام کا قرآنی احکام بذریعہ حدیث و فقہ سیکھنا سکھانا ، صوفیائے کرام کا اَسْرَار ورُمُوزِقرآن بسلسلہ طریقت سیکھنا سکھانا سب قرآن ہی کی تعلیم ہے۔ صرف اَلفاظِ قرآن کی تعلیم مُراد نہیں۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۳، ص۲۱۷)
یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہوجائے
تلاوت کرنا صبح و شام میرا کام ہو جائے
حضرتِ سیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی علم کا حاصل کرناہر مسلمان مرد (وعورت) پر فرض ہے۔
(شعب الإیمان، باب في طلب العلم، الحدیث: ۱۶۶۵، ج۲، ص۲۵۴)
ہر مسلمان مرد عورت پر علم سیکھنا فرض ہے، (یہاں) علم سے بَقَدَرِ ضرورت شرعی مسائل مُراد ہیں لہٰذا روزے نماز کے مسائلِ ضرور یہ سیکھنا ہر مسلمان پر فرض، حیض و نفاس کے ضروری مسائل سیکھنا ہر عورت پر، تجارت کے مسائل سیکھنا ہر تاجِر پر، حج کے مسائل سیکھنا حج کو جانے والے پر عین فرض ہیں لیکن دین کا پورا عالم بننا فرضِ کفایہ کہ اگر شہر میں ایک نے ادا کر دیا تو سب بری ہو گئے۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۱، ص۲۰۲)
حضرتِ سیِّدُنا زِیاد بن حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ ذیشان ہے:
یعنی جو شخص طلبِ علم میں رہتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کے رِزْق کا ضامِن ہے۔
(تاریخ بغداد، رقم: ۱۵۳۵، ج۳، ص۳۹۸)
اللّٰہ تعالیٰ طالب علم کو خاص طور پرایسے ذریعے سے رزق عطا کرے گاکہ اس کا گمان بھی نہ ہو گا، ان شآء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ لہٰذا طالب العلم کو چاہئے کہ اپنے ربّ ہی پر تَوَکُّل کرے اور تھوڑے کھانے اور کم لباس پرقَنَاعَت کرے۔امام مالکؒ فرماتے ہیں : جو فَقْرپر راضی نہ ہوگا تو اسے اس کا مطلوب یعنی علم نہ مل سکے گا۔
(فیض القدیر، تحت الحدیث۸۸۳۸، ج۶، ص۲۲۸، ملخّصًا)
فقہ حنفی کے عظیم پیشوا اِمام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ہونہار شاگرد امام ابویوسف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جب امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شاگردی اختیار کی تو آپ مالی طور پر زبوں حالی کا شکار تھے۔ لیکن آپ نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل علم حاصل کرتے رہے اور آخرِ کار فقہ حنفی کے امام کہلائے ۔
حضرتِ سیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اﷲعَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے:
یعنی جوشخص طلب علم کے لیے گھر سے نکلا ، تو جب تک واپس نہ ہو اﷲعَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ہے۔
(جامع الترمذي، ابوابُ العلم، باب فضل طلب العلم، الحدیث ۲۶۵۶، ج۴، ص۲۹۵)
جو کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے اپنے گھر سے یا علم کی جُسْتجُو (جُسْتْ۔جُوْ) میں اپنے وطن سے عُلَمَاء کے پاس گیا وہ بھی مُجَاہِد فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہ (یعنی راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے کی طرح) ہے ۔ غازِی کی طرح گھر لوٹنے تک اس کا سارا وقت اور ہر حرکت عبادت ہوگی۔
(مراٰۃالمناجیح، ج۱، ص۲۰۳)
یقینا علم حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا بُزُرگان دین کی سنت ہے ۔اور وہ نفوس قدسیہ تو اس کٹھن دور میں علم حاصل کرنے کے لئے سفر کرتے تھے جب سفر اونٹ پر ، گھوڑے پر یا پیدل کیا جاتا تھا۔اور منزل تک پہنچنے میں کئی روز اور کبھی کبھی کئی ماہ صرف ہو جا تے تھے۔جبکہ آج کل تو مہینوں کا سفر دنوں میں اور دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو جا تا ہے ۔اُس دور میں اس قدر دشواریاں ہونے کے باوجود لوگوں میں جذبہ تھا کہ وہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں سفر کرتے تھے ۔ اور سنتوں کے راستے میں آنے والی ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتے تھے۔ مگر افسوس ! آج حالانکہ سفر کرنا نہایت ہی آسان ہو چکا ہے۔ پھر بھی اِس آسانی سے فائدہ اٹھانے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ہاں !حصول دنیا کیلئے اس آسانی کا پورا پورا فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔دولت کمانے کے لئے لوگ ہزاروں میلوں کا سفر طے کر کے نہ جانے کہاں کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ مال کمانے کی غرض سے ماں باپ ، بیوی بچوںسب سے فرقت اور جدائی گوارا کرلیتے ہیں۔ خوب کماتے ہیں، بینک بیلنس بڑھاتے ہیں، خوب خوش ہو تے ہیں، ہر وقت مال ودولت کے ڈھیر کے سہانے سپنے دیکھتے رہتے ہیں ، دولت بڑھانے کی نئی نئی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں۔شب وروز مال ہی کے جال میں پھنسے رہتے ہیں۔آہ! حبِّ مال میں ہر ایک آج سفر کرنے کے لئے بیقرار اور سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لئے تیار نظر آتاہے۔ اسلام کی سر بلندی کے لئے نیکی کی دعوت پیش کرنے کے لئے کون اپنے گھر سے نکلے۔آہ! صد آہ!
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستیٔ کردار
حضرتِ سیِّدُنا سَخْبِرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے:
یعنی جو شخص علم طلب کرتا ہے، تو یہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفّارہ ہے۔
(جامع الترمذي، ابواب العلم، باب فضل طلب العلم، الحدیث ۲۶۵۷، ج۴، ص۲۹۵)
طالب علم سے صغیرہ گناہ (اُسی طرح) معاف ہو جاتے ہیں جیسے وضو نماز وغیرہ عبادات سے، لہٰذا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالب علم جو گناہ چاہے کرے ۔ یا (اس حدیث کا) مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نیتِ خیر سے علم طلب کرنے والوں کو گناہوں سے بچنے اور گذشتہ گناہوں کا کفّارہ ادا کرنے کی توفیق دیتا ہے۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۱، ص۲۰۳)
حضرتِ سیِّدُنا مُعَاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ اﷲ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
یعنی اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ فرماتا ہے، اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔
(صحیح البخاري، کتاب العلم باب من یرد اللّٰہ بہ خیرا۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۷۱، ج۱، ص۴۳)
فِقْہ کے شرعی معنی یہ ہیں کہ اَحکامِ شَرْعِیَّہ فَرْعِیَّہ کو انکے تفصیلی دلائل سے جاننا۔ (اس حدیث کے) معنی یہ ہوئے کہ اللّٰہ جسے تمام دنیا کی بھلا ئی عطافرمانا چاہتا ہے اسے فقیہ بناتا ہے ۔ (ماخوذ از نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج۱، ص۴۲۴) یعنی اسے علم ، دینی سمجھ اور دانائی بخشتا ہے خیال رہے کہ فقہ ظاہری ‘ شریعت ہے اور فقہ باطنی‘ طریقت اور حقیقت ، یہ حدیث دونوں کو شامل ہے۔ اس (حدیث) سے دو مسئلے ثابت ہوئے ایک یہ کہ قران و حدیث کے ترجمے اور الفاظ رٹ لینا علمِ دین نہیں بلکہ انکا سمجھنا علم دین ہے۔ یہی مشکل ہے۔ اسی کے لئے فقہاء کی تقلید کی جاتی ہے ۔اسی وجہ سے تمام مُفَسِّرِین و مُحَدِّثِیۡن آئِمَّہ مُجْتَہِدِین کے مُقَلِّد ہوئے اپنی حدیث دانی پر نازاں نہ ہوئے ۔دوسرے یہ کہ حدیث وقراٰن کا علم کمال نہیں ، بلکہ انکا سمجھنا کمال ہے۔ عالمِ دین وہ ہے جسکی زبان پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہو اور دل میں ان کا فیضان۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۱، ص۱۸۷)
علمِ دین وعلمائے حقّہ کے فضائل بے شمار ہیں مگر افسوس کہ آج کل علمِ دین کی طرف ہمارا رُجحان نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اپنے ہونہار بچوں کو دنیوی علوم وفنون تو خوب سکھائے جاتے ہیں مگر سنتیں سکھانے کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ۔ اگر بچہ ذرا ذہین ہوتواس کے والدین کے دل میں اسے ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، کمپیوٹر پروگرامر بنانے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے اس کی دینی تربیت سے منہ موڑ کر مغربی تہذیب کے نمائندہ اداروں کے مخلوط ماحول میں تعلیم دلوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی بلکہ اسے ’’ اعلیٰ تعلیم ‘‘ کی خاطر کفار کے حوالے کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔اور اگر بچہ کندذہن ہے یا شرارتی ہے یا معذور ہے تو جان چھڑانے کے لئے اسے کسی دارالعلوم یا جامعہ میں داخلہ دلا دیا جاتا ہے ۔بظاہر اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ والدین کی اکثریت کا مَطْمَحِ نظر محض دنیوی مال وجاہ ہوتی ہے ، اُخروی مَرَاتِبْ کا حصول ان کے پیشِ نظر نہیں ہوتا ۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کوعالم بنائیں تاکہ وہ عالم بننے کے بعد معاشرے میں لائق ِ تقلید کردار کا مالک بنے اور دوسروں کو علمِ دین بھی سکھائے ۔
حضرتِ سیِّدُنا عبد اﷲ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی جو خاموش رہا نَجات پاگیا۔
(جامع الترمذي، ابواب صفۃ القیامۃ، الحدیث۲۵۰۹، ج۴، ص۲۲۵)
اِس فرمان کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس نے خاموشی اختیار کی وہ دونوں جہاں کی بلاءں سے محفوظ رہا۔حُجَّۃُ الاسلام امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں: ’’ کلام چار قسم کے ہیں، (ایک) خالص نقصان دہ، (دوسرا) خالص مُفید، (تیسرا) نقصان دہ بھی اور مُفید بھی، (چوتھا) نہ نقصان دہ اور نہ مُفید ۔ خالص نقصان دہ سے ہمیشہ پرہیز ضروری ہے ۔ خالص مفید کلام ضرور کرے ۔ جو کلام نقصان دہ بھی ہو اور مُفید بھی اس کے بولنے میں احتیاط کرے ، بہتر ہے کہ نہ بولے اور چوتھی قسم کے کلام میں وقت ضائع کرنا ہے ۔ان کلاموں میں امتیاز کرنا مشکل ہے لہٰذا خاموشی بہتر ہے ۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۶، ص۴۶۴)
ایک مرتبہ بادشاہ بہرام کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اسے کسی پرندے کے بولنے کی آواز سنائی دی ۔ اس نے پرندے کی طرف تیر پھینکا جو اسے جالگا (اور وہ ہلاک ہوگیا)۔ بہرام نے کہا: ’’زبان کی حفاظت انسان اور پرندے دونوں کے لئے مفید ہے کہ اگر یہ نہ بولتا تو اس کی جان بچ جاتی۔
(المستطرف فی کل فن مستظرف ، الباب الثالث عشر ، ج۱، ص ۱۴۷)
حضرتِ سیِّدُنا ابو مسعود انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے:
یعنی جوشخص کسی کو نیکی کا راستہ بتائے گا، تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا، جتنا کہ اس نیکی پر عمل کرنے والے کو۔
(صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ، باب فضل اعانۃ الغازي۔۔۔ الخ، الحدیث۱۸۹۳، ص۱۰۵۰)
نیکی کرنے والا، کرانے والا، بتانے والا، مشورہ دینے والا سب ثواب کے مستحق ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۱، ص۱۹۴) سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ،’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے کسی ایک کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
(سنن ابو داؤد ، الحدیث۳۶۶۱، ج۳، ص ۳۵۰)
حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا روایت کرتے ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی میری طرف سے پہنچا دو، اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔
(صحیح البخاري، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکرعن بنی اسرائیل، الحدیث ۳۴۶۱، ، ج۲، ص۴۶۲)
آیۃ کے معنی علامت اور نشانی کے ہیں ۔اس لحاظ سے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُعْجِزَات ، اَحادیث، اَحکام ، قراٰنی آیات سب آیتیں ہیں۔اِصطِلاح میں قراٰن کے اس جملے کو آیت کہا جاتا ہے جس کا مستقل نام نہ ہو۔نام والے مضمون کو سورۃ کہتے ہیں۔یہاں آیت سے لُغوی معنی مراد ہیں یعنی جسے کوئی مسئلہ یا حدیث یا قرآن شریف کی آیت یادہو وہ دوسرے کو پہنچا دے۔تبلیغ صرف علماء دَامَتْ فُیُوْضُھُمْ پر فرض ہے، ہر مسلمان بقدرِ علم مبلغ ہے اور ہو سکتا ہے کہ آیت کے اِصْطِلَاحِی معنی مراد ہوں اور اس سے آیت کے الفاظ معنی مطلب مسائل سب مراد ہوں یعنی جسے ایک آیت حفظ ہو اسکے متعلق کچھ مسائل معلوم ہوں لوگوں تک پہنچائے، تبلیغ بھی بڑی اہم عبادت ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۱، ص۱۸۵)
حضرتِ سیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
یعنی دُعا عبادت کا مغز ہے۔
(جامع الترمذي، کتاب الدعوات، الحدیث: ۳۳۸۲، ج۵، ص۲۴۳)
دُعا عبادت کا رکنِ اعلیٰ ہے۔ دُعا عبادت کا مغز اس اعتبار سے ہے کہ دُعا مانگنے والا ہر ایک سے کنارہ کرکے اپنے ربّ عزوجل کی بارگاہ میں مناجات کرتا ہے۔
(فیض القدیر ، ج۳، ص۷۲۱)
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، اﷲعَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی دعابلا کو ٹال دیتی ہے۔
(الجامع الصغیر، للسیوطي، الحدیث: ۴۲۶۵، ص۲۵۹)
دُعا کے دو فائدے ہیں ایک یہ کہ اسکی برکت سے آئی بلا ٹل جاتی ہے دوسرے یہ کہ آنے والی بلا رک جا تی ہے ۔لہٰذا فقط بَلا آنے پر ہی دُعا نہ کی جائے بلکہ ہر وقت دُعا مانگنی چاہئیے ، شاید کوئی بَلا آنے والی ہو جو اِس دُعا سے رُک جائے۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۳، ص۲۹۵)
دَورِ نبوی میں ایک تاجِر مدینۂ پاک سے شام اور شام سے مدینۃ المنوّرہ مال لاتا اور لے جاتا تھا۔ ایک بار اچانک ایک ڈاکو گھوڑے پر سوار اس کی راہ میں حائل ہوا اور للکار کرتاجر پر جھپٹا۔ تاجر نے کہا:’’اگر تو مال کے لئے ایساکر رہا ہے تو مال لے لے اور مجھے چھوڑدے۔ ‘ڈاکو کہنے لگا: مال تو میں لوں گا ہی ، اس کے ساتھ ساتھ تیری جان بھی لوں گا۔ تاجر نے اُسے بَہُت سمجھایا مگر وہ نہ مانا۔ بالآخر تاجر نے اس سے اتنی مہلت مانگی کہ وضو کر کے نَماز پڑھے اور کچھ دُعا کرے ۔ڈاکو اس پر راضی ہو گیا۔ تاجر نے وضو کر کے چار رکعت نماز پڑھی اور ہاتھ اٹھا کر تین باریہ دعا کی؛
ترجمہ: اے محبت فرمانے والے، اے محبت فرمانے والے، اے محبت فرمانے والے، اے بزرگ عرش والے، اے پیدا کرنے والے، اے لوٹانے والے، اے اپنے ارادے کو پورا کرنے والے، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے اس نور کے طفیل جس نے ترے عرش کو بھر دیا، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری اس قدرت کے طفیل جس کے ساتھ تو اپنی تمام مخلوق پر قادر ہے اور تیری اس رحمت کے طفیل جو ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اے مدد فرمانے والے میری مدد فرما۔
جب وہ تاجر دعا سے فارغ ہو ا تو دیکھا کہ ایک شخص سفید گھوڑے پر سوار ، سبز کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں نورانی تلوار لئے ہوئے موجود ہے ۔ وہ ڈاکو اس سُوار کی طرف بڑھا۔ مگر قریب پہنچتے ہی اس کا ایک نیزہ کھا کر زمین پر آرہا۔ وہ سوار تاجر کے پاس آیا اور کہا : ’’ تُم اسے قتل کرو۔ ‘‘ تاجر نے پوچھا: ’’ آپ کون ہیں؟ میں نے اب تک کسی کو قتل نہیں کیااور نہ اسے قتل کرنا میرے دل کو گوارا ہو گا ‘‘ اس سوار نے پلٹ کر ڈاکو کو مار ڈالا اور تاجر کو بتایا کہ میں نے تیسرے آسمان کے دروازوں کی کھٹ پٹ سنی جس سے جان لیا کہ کوئی واقعہ ہوا ہے، اور جب تم نے دو بارہ دعا کی آسمان کے دروازے اس زور سے کھلے کہ ان سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔تمہاری سہ بارہ دعا سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے آوازدی : ’’ کون ہے جو اس ستم رسیدہ کی مدد کو جائے؟ ‘‘ تو میں نے اپنے رب سے دعاکی : ’’ یا اللہ عزوجل! اس کے قتل کا کام میرے ذمہ فرما۔ ‘‘ یہ بات یاد رکھو جو مصیبت کے وقت تمہاری یہ دعا پڑھے گا چاہے کیساہی حادثہ ہو اللہ تعالی اُسے اُس مصیبت سے محفوظ رکھے گا اور اس کی دادرسی فرمائیگا۔
(روض الریاحین ، الحکایۃ الثامنۃ والتسعون بعد مئتین ، ص۲۵۶ و الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۷، ص۳۱۳)
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے:
یعنی جو دھوکہ دہی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
(جامع الترمذي، ابواب البیوع، باب ماجاء فيکراھیۃ الغش ، الحدیث۱۳۱۹، ج۳، ص۵۷)
اس (حدیث) سے معلوم ہوا کہ تجارتی چیز میں عیب پیدا کرنا بھی جرم ہے، اور قُدْرَتی پیدا شدہ عیب کو چھپانا بھی جرم۔ دیکھو (نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے) بارش سے بھیگے غلہ کو چھپانا مِلَاوَٹ ہی میں داخِل فرمایا۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۴، ص۲۷۳)
چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبِّ العزت، محسنِ انسانیت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غلہ کے ایک ڈھیر پر گزرے تو اپنا ہاتھ شریف اس میں ڈال دیا ۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی انگلیوں نے اس میں تری پائی تو فرمایا: ’’اے غلہ والے یہ کیا؟ ‘‘عرض کی:’’ یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر بارش پڑ گئی۔‘‘فرمایا:’’ تو گیلے غلہ کو تو نے ڈھیر کے اُوپر کیوں نہ ڈالا تاکہ اسے لوگ دیکھ لیتے، جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ۔
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب قول النبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم من غش فلیس منا، الحدیث۱۰۲، ص۶۵)
حضرتِ سیِّدُنا ابن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی شَرْمِنْدَگی توبہ ہے۔
(سنن ابن ماجہ، ابواب الزھد، باب ذکر التوبۃ، الحدیث: ۴۲۵۲، ج۴، ص۴۹۲)
چونکہ گزشتہ گناہوں پر نَدَامَتْ (یعنی شرمندگی) توبہ کا رُکنِ اعلیٰ ہے کہ اس پر باقی سارے اَرکان مَبْنِی ہیں ، اس لئے صرف ندامت کا ذکر فرمایا ۔جو کسی کا حق مارنے پر نادِم ہوگا تو حق ادا بھی کردے گا، جو بے نمازی ہونے پر شرمندہ ہوگا وہ گزشتہ چھوٹی نمازیں قضا بھی کر لے گا۔ ان شاء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ (مراٰۃ المناجیح، ج۳، ص۳۷۹)
حضرتِ سیِّدُنا ابن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔
(سنن ابن ماجہ، ابواب الزھد، باب ذکر التوبۃ، الحدیث ۴۲۵۰، ج۴، ص۴۹۱)
توبہ سے مُراد سچی اور مقبول توبہ ہے جس میں تمام شرائطِ جواز وشرائطِ قبول جمع ہوں کہ حقوقُ العباد اور حقوقِ شریعت ادا کردئیے جائیں ، پھر گُذشتہ کوتاہی پر ندامت ہو اور آئندہ نہ کرنے کا عہد ، اس توبہ سے گناہ پر مطلقاً پکڑ نہ ہوگی بلکہ بعض صورتوں میں تو گناہ نیکیوں سے بدل جائیں گے ۔ حضرت رابعہ بصریہ رَحْمۃ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما حضرت سفیان ثوری اور حضرت فضیل بن عیاض رَحْمۃ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما سے فرمایا کرتی تھیں: ’’ میرے گناہ تمہاری نیکیوں سے کہیں زیادہ ہیں ، اگر میری توبہ سے یہ گناہ نیکیاں بن گئے تو پھر میری نیکیاں تمہاری نیکیوں سے بہت بڑھ جائیں گی ۔ (مرأۃ المناجیح ، ج۳، ص۳۷۹)
سچی توبہ کسے کہتے ہیں؟
اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اہلسنّت ، مجددِ دین وملت، الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں : سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی نادم وپریشان ہو کر فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پورا عزم (یعنی ارادہ) کرے جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجا لائے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج ۲۱، ص۱۲۱)
ابتدائی دور میں حضرت ِسیِّدُنا حبیب عَجَمِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بہت امیر تھے اور اہل بصرہ کو سُود پر قرضہ دیا کرتے تھے ۔ جب مقروض سے قرض کا تقاضا کرنے جاتے تو اس وقت تک نہ ٹلتے جب تک کہ قرض وصول نہ ہو جاتا ۔اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے قرض وصول نہ ہوتا تو مقروض سے اپنا وقت ضائع ہونے کا ہرجانہ وصول کرتے ، اور اس رقم سے زندگی بسر کرتے ۔ایک دن کسی کے یہاںوصولیابی کے لیے پہنچے تو وہ گھر پر موجود نہ تھا ۔ اس کی بیوی نے کہا کہ ’’ نہ تو شوہر گھر پر موجود ہے اور نہ میرے پاس تمہارے دینے کے لیے کوئی چیز ہے ، البتہ میں نے آج ایک بھیڑ ذبح کی ہے جس کا تمام گوشت تو ختم ہو چکا ہے البتہ سر باقی رہ گیا ہے ، اگر تم چاہو تو وہ میں تم کو دے سکتی ہوں۔ ‘‘
چنانچہ آپ اس سے سر لے کر گھر پہنچے اور بیوی سے کہا کہ یہ سرسُودمیں ملا ہے اسے پکا ڈالو۔بیوی نے کہا : ’’ گھر میں نہ لکڑی ہے اور نہ آٹا ، بھلا میں کھانا کس طرح تیار کروں ؟ ‘‘ آپ نے کہا کہ’’ان دونوں چیزوں کا بھی انتظام مقروض لوگوں سے سُود لے کر کرتا ہوں ۔‘‘اور سود ہی سے یہ دونوں چیزیں خریدکر لائے ۔ جب کھانا تیار ہو چکا تو ایک سائل نے آکر سوال کیا۔ آپ نے کہا کہ ’’ تیرے دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور تجھے کچھ دے بھی دیں تو اس سے تو دولت مند نہ ہو جائے گا لیکن ہم مفلس ہو جائیں گے۔ ‘‘ چنانچہ سائل مایوس ہو کر واپس چلا گیا۔
جب بیوی نے سالن نکالنا چاہا تو وہ ہنڈیا سالن کی بجائے خون سے لبریز تھی۔ اس نے شوہر کو آواز دے کر کہا :’’دیکھوتمہاری کنجوسی اور بد بختی سے یہ کیا ہو گیا ہے؟ ‘‘ آپ کو یہ دیکھ کر عبرت حاصل ہوئی اور بیوی کو گواہ بنا کر کہا کہ آج میں ہر برے کام سے توبہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر مقروض لوگوں سے اصل رقم لینے اور سود ختم کرنے کے لیے نکلے۔راستہ میں کچھ لڑکے کھیل رہے تھے آپ کو دیکھ کر کچھ لڑکوں نے آوازے کسنا شروع کئے کہ ’’ دور ہٹ جاؤ حبیب سود خور آرہا ہے ، کہیں اس کے قدموں کی خاک ہم پر نہ پڑ جائے اور ہم اس جیسے بد بخت نہ بن جائیں ۔ ‘‘ یہ سن کر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور حضرت ِسیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کی خدمت میں حاضر ہو گئے انہوں نے آپ کو ایسی نصیحت فرمائی کہ بے چین ہو کر دوبارہ توبہ کی ۔ واپسی میں جب ایک مقروض شخص آپ کو دیکھ کر بھاگنے لگا تو فرمایا ’’ تم مجھ سے مت بھاگو ، اب تو مجھ کو تم سے بھاگنا چاہیے تاکہ ایک گنہگار کا سایہ تم پر نہ پڑ جائے۔‘‘جب آپ آگے بڑھے تو انہی لڑکوں نے کہنا شروع کیا کہ ’’ راستہ دے دو اب حبیب تائب ہو کر آ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے پیروں کی گرد اس پر پڑ جائے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمارا نام گناہگاروں میں درج کر لے ۔ ‘‘ آپ نے بچوں کی یہ بات سن کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے عرض کی : ’’ تیری قدرت بھی عجیب ہے کہ آج ہی میں نے توبہ کی اور آج ہی تو نے لوگوں کی زبان سے میری نیک نامی کا اعلان کرا دیا ۔
اِس کے بعد آپ نے اعلان کرادیا کہ جو شخص میرا مقروض ہو وہ اپنی تحریر اور مال واپس لے جائے ۔اس کے علاوہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تمام دولت راہ خدا عَزَّوَجَلَّ میں خرچ کردی۔ پھر ساحل فرات پر ایک عبادت خانہ تعمیر کر کے عبادت میں مشغول رہے اور یہ معمول بنا لیا کہ دن کو علم دین کی تحصیل کے لیے حضرت ِسیِّدُنا حسن بصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کی خدمت میں پہنچ جاتے اور رات بھر مشغول عبادت رہتے ۔چونکہ (مکمل کوشش کے باوجود) قرآن مجید کا تلفظ صحیح مخرج سے ادا نہیں کر سکتے تھے اس لیے آپکو عَجَمِی کا خطاب دے دیا گیا ۔
(تذکرۃ الاولیاء، باب، ذکر حبیب عجمی ، ج۱، ص ۵۶۔۵۷)
امیرُا لمومِنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی نماز دین کاسُتُون ہے۔
(شعب الإیمان، باب فی الصلوات، الحدیث ۲۸۰۷، ج۳، ص۳۹)
نماز دین کی اصل اور بنیاد ہے، اسے اُمُّ الْعِبَادات ، مِعْرَاجُ الْمُؤمِنِین بھی کہا جاتا ہے ۔ (فیض القدیر، تحت الحدیث۵۱۸۷، ج۴، ص۳۲۷)
شیخ ابو عبد اللہ جلاءرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدہ ماجدہ نے ایک روز اپنے شوہر سے مچھلی لانے کی فرمائش کی ۔ شیخ کے والد بازار گئے اور اپنے فرزند ( ابو عبداللہ جلاء) کو بھی ہمراہ لے گئے ۔ بازارسے مچھلی خریدی ، اور ایک مزدور تلاش کرنے لگے تاکہ وہ مچھلی گھر تک پہونچا دے ۔ ایک لڑکا ملا اور اس نے مچھلی سر پر اُٹھا لی اور ساتھ چلا ، راستے میں مؤذن کی اذان سنائی دی۔اس مزدور لڑکے نے کہا: ’’ نَماز کے لئے مجھے طہارت کی حاجت ہے اور اذان ہو رہی ہے ، اگر آپ راضی ہوں تو میرا انتظار کر لیں ، ورنہ اپنی مچھلی لے کر جائیں ۔ ‘‘ اتنا کہہ کر اس نے مچھلی وہیں چھوڑی اور مسجد چلا گیا۔ شیخ کے والد نے کہا : ’’ اس لڑکے کا اللّٰہ تعالیٰ پر تَوَکُّل ہے ، ہمیں بدرجۂ اولیٰ توکل کرنا چاہئے ۔ ‘‘ چناچہ مچھلی وہیں چھوڑ کر ہم لوگ نماز پڑھنے چلے گئے ۔ ہم لوگ نماز پڑھ کر نکلے تو مچھلی اپنی جگہ تھی ، لڑکے نے اُٹھا لی اور ہم لوگ گھر پہنچے۔
(روض الریاحین الحکایۃ التاسعۃ والعشرون بعد المئتین، ص۲۱۵، ملخّصا)
حضرتِ سیِّدُنا ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی جس نے میری قبر کی زِیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت لازِم ہوگئی۔
(شعب الإیمان، باب في المناسک، فضل الحج والعمرۃ، الحدیث۴۱۵۹، ج۳، ص۴۹۰)
اللّٰہ تعالیٰ قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
ترجمۂ کنزالایمان : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضروراللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
صدر الافاضل حضرت مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی (اَلْمُتَوَفّٰی۱۳۶۷ھ) اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہٰی میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وسیلہ اور آپ کی شفاعت کار بر آری (یعنی کام بن جانے) کا ذریعہ ہے سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کے بعد ایک اَعرابی(یعنی دیہاتی شخص) روضہء اقدس پر حاضر ہوا اور روضہ شریفہ کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا : ’’ یارسول اللہ جو آپ نے فرمایا ہم نے سُنا اور جو آپ پر نازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بَخْشِش چاہنے حاضر ہوا تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے۔ ‘‘ اس پر قبر شریف سے نِدا آئی کہ تیری بخشش کی گئی۔
حضرت سیدتنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی قَبْر کا عذاب حق ہے۔
(صحیح البخاري، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، الحدیث۱۳۷۲، ج۱، ص۴۶۳)
عذاب قبر کے متعلق چند مسائل یاد رکھنے چاہیئں
(1) یہاں قبر سے مراد عالم بَرْزَخ ہے ۔جس کی اِبتدا ہر شخص کی موت سے ہے اِنتہا قیامت پر ‘عرفی قبر مراد نہیں لہٰذا جو مُردہ دفن نہ ہوا بلکہ جلا دیا گیا یا ڈبو دیا گیا یا اسے شیر کھا گیا اسے بھی قبر کا حساب و عذاب ہے۔
(2) حساب قبر اور ہے عذاب قبر کچھ اور بعض لوگ حساب قبر میں کامیاب ہوں گے مگر بعض گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلاء جیسے چغلخور اور گندا (یعنی پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والا)
(3) کافر کو عذاب قبر دائمی ہوگا گنہگار مومن کو عارضی
(4) عذاب قبر روح کو ہے جسم اس کے تابع مگر حشر کے بعد والا عذاب وثواب روح وجسم دونوں کو ہوگا۔ (مراٰۃ المناجیح ، ج۱، ص ۱۲۵، ماخوذاً)
حضرتِ سَیِّدُنا عَمْرو بن شُرَ حبِیلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک ایسا شخص اِنْتِقال کرگیا جس کو لوگ مُتَّقی سمجھتے تھے۔جب اُسے دَفْن کردیا گیا تو اُس کی قَبْر میں عذاب کے فِرِشتے آپہنچے اور کہنے لگے، ہم تجھ کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب کے سو کوڑے ماریں گے۔اُ س نے خوفزدہ ہوکر کہا کہ مجھے کیوں مارو گے؟ میں تَو پرہیز گار آدمی تھا۔تَو اُنہوں نے کہا، اچّھا چلو پچاس ہی مارتے ہیں مگر وہ برابر بَحث کرتا رہاحتّٰی کہ فِرِشتے ایک پر آگئے اور اُنہوں نے ایک کوڑا مار ہی دیا ۔ جس سے تمام قَبْر میں آگ بھڑک اُٹھی اور وہ شخص جل کرخاکِسْتَر (یعنی راکھ ) ہو گیا ۔پھر اُس کو زِندہ کیا گیا۔
تو اُس نے دَرد سے تِلمِلا تے اور روتے ہوئے فریاد کی، آخِر مجھے یہ کوڑا کیوں مارا گیا؟ تو اُنہوں نے جواب دیا، ایک روزتُو نے بے وُضُو نَماز پڑ ھ لی تھی ۔ اور ایک روز ایک مظلوم تیرے پاس فریاد لے کر آیا مگرتُونے فریاد رَسی نہ کی۔
(شَرحُ الصُّد ور ص۱۶۵)
دیکھا آپ نے؟ اللّٰہ عَزَّوَجَل ناراض ہُوا تو اُس نے نیک اور پرہیز گار شخص کی بھی گرِفت فرمائی اور وہ عذابِ قَبرمیں گھِر گیا۔ اللّٰہعَزَّوَجَلَ ہمارے حالِ زار پر رَحم فرمائے۔اور ہماری بے حساب مغفِرت فرمائے۔امین
(فیضانِ سنّت جلد اوّل (تخریج شدہ) ، باب فیضانِ رمضان ، ص۶۱)
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اﷲعَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی دنیا مومِن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔
(صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب الدنیا سجن المؤمن، الحدیث۲۹۵۶، ص۱۵۸۲)
مومِن دنیا میں کتنا ہی آرام میں ہو ،مگر اس کے لئے آخرت کی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا جیل خانہ ہے، جس میں وہ دل نہیں لگاتا۔ جیل اگرچہA کلاس ہو ، پھر بھی جیل ہے، اور کافر خواہ کتنی ہی تکلیف میں ہومگر آخرت کے عذاب کے مقابل اس کے لئے دُنیا باغ اور جنت ہے۔ وہ یہاں دل لگا کر رہتا ہے۔لہٰذا حدیث شریف پر یہ اِعتراض نہیں کہ بعض مومن دنیا میں آرام سے رہتے ہیں، اور بعض کافر تکلیف میں۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۷، ص۴)
دُ نیا قید خانہ ہے
قاضی سہل محدث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک دن بڑے تزک و احتشام کے ساتھ گھوڑے پر سوار کہیں تشریف لے جا رہے تھے ۔ اچانک ایک حمام سلگانے والا ، دھوئیں اور غبار کی کثافت سے میلا کچیلایہودی حضرت سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ قاضی صاحب ! مجھے اپنے نبی (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے اس فرمان کامطلب سمجھا دیجئے کہ ’’ دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے۔ ‘‘ کیونکہ آپ مؤمن ہو کر اس عیش وآرام اور کرّ و فر کے ساتھ رہتے ہیں اور میں کافر ہو کر اتنا خستہ حال اور آلام ومصائب میں گرفتار ہوں۔ قاضی سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے برجستہ جواب دیا: ’’آرام وآسائش کے باوجود یہ دُنیا میرے لئے جنت کی عظیم نعمتوں کے مقابلے میں قید خانہ ہے ، جبکہ تمام تر تکالیف کے باوجود یہ دُنیا تمہارے لئے دوزخ کے ہولناک عذاب کے مقابلے میں جنت ہے۔
(تفسیرروح البیان، سورۃ الانعام ، تحت الآیۃ۳۲، ج۳، ص۲۳ )
حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔
(الفردوس بمأ ثور الخطاب، الحدیث۲۴۳۶، ج۱، ص۳۳۳)
مَساکین مِسکین کی جمع ہے۔جو شخص حج کے لئے جانے سے عاجِز ہو اُس کا جمعہ کے دن مسجد کی طرف جانا اس کیلئے حج کی مانند ہے۔
(فیض القدیر، تحت الحدیث۳۶۳۶، ج۳، ص۴۷۴)
حضرتِ سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں :
یعنی خوشخبری سناء اور (لوگوں کو ) نفرت نہ دلاء۔
(صحیح البخاري، کتاب العلم، باب ما کان النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یتخولہم الخ، الحدیث۶۹، ج۱، ص۴۲)
یعنی لوگوں کو گذشتہ گناہوں سے توبہ کر نے اور نیک اعمال کر نے پر حق تعالیٰ کی بخشش ورحمت کی خوشخبریاں دو۔ اُن گناہوں کی پکڑ پر اس طرح نہ ڈراء کہ انہیں اللّٰہ کی رحمت سے مایوسی ہو کر اسلام سے نفرت ہو جائے۔ بہر حال اِنْذَار اورڈرانا کچھ اور ہے اور مایوس کر کے مُتَنَفَّر (یعنی بددل) کر دینا کچھ اور لہذا یہ حدیث ان آیات و احادیث کے خلاف نہیں جن میں اللّٰہ کی پکڑ سے ڈرانے کا حکم ہے۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۵، ص۳۷۱)
حضرت ِسیدناابو سَعِید خُدْرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم سے پہلے ایک شخص نے 99 قتل کئے تھے۔ جب اس نے اہل زمین میں سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو اسے ایک راہب کے بارے میں بتایا گیا ۔ وہ اس کے پاس پہنچااوراس سے کہا: ’’ میں نے ننانوے قتل کئے ہیں کیا میرے لئے توبہ کی کوئی صورت ہے؟‘‘ راہب نے اسے مایوس کرتے ہوئے کہا:’’ نہیں۔ ‘‘اس نے اسے بھی قتل کردیا اور 100 کاعدد پورا کرلیا۔پھر اس نے اہل زمین میں سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا تو اسے ایک عالم کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے اس عالم سے کہا:’’میں نے سو قتل کئے ہیں کیا میرے لئے توبہ کی کوئی صورت ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’ ہاں ! تمہارے اور توبہ کے درمیان کیا چیز رکاوٹ بن سکتی ہے؟ فلاں فلاں علاقہ کی طرف جاء وہاں کچھ لوگ اللہ عَزَّوَجَلّ کی عبادت کرتے ہیں ان کے ساتھ مل کر اللہ عَزَّوَجَلّ کی عبادت کرو اور اپنے علاقہ کی طرف واپس نہ آنا کیونکہ یہ برائی کی سرزمین ہے۔ ‘‘
وہ قاتل اس علاقہ کی طر ف چل دیا جب وہ آدھے راستے میں پہنچا تو اسے موت آگئی ۔رحمت اور عذاب کے فرشتے اس کے بارے میں بحث کرنے لگے۔رحمت کے فرشتے کہنے لگے : ’’ یہ توبہ کے دلی ارادے سے اللہ عَزَّوَجَلّ کی طرف آیا تھا۔ ‘‘ اور عذاب کے فرشتے کہنے لگے کہ اس نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ تو ان کے پاس ایک فرشتہ انسانی صورت میں آیااور انہوں نے اسے ثالث مقرر کرلیا۔ اس فرشتے نے ان سے کہا: ’’دونوں طرف کی زمینوں کو ناپ لو یہ جس زمین کے قریب ہوگا اسی کا حق دار ہے۔ ‘‘ جب زمین ناپی گئی تو وہ اس زمین کے قریب تھا جس کے ارادے سے وہ اپنے شہر سے نکلا تھا تو رحمت کے فرشتے اسے لے گئے۔
(کتا ب التو ابین ، تو بۃ من قتل مائۃ نفس ، ص ۸۵)
(یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرو)
(میں اللہ عَزَّوَجَلّ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں)
حضرتِ سیِّدُنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ اﷲ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی سلام گفتگو سے پہلے ہے۔
(جامع الترمذي، ابواب الاستئذان، باب ماجاء في السلام قبل الکلام، الحدیث۲۷۰۸، ج۴، ص۳۲۱)
سلام تین قسم کے ہیں : ’’ سلام اِذْن ‘‘یہ گھر میں داخل ہو نے سے پہلے اجازتِ داخلہ حاصل کرنے کے لئے ہے۔ ’’ سلامِ تَحِیَّۃ ‘‘یہ گھر میں داخل ہونے اور کلام کرنے سے پہلے ہے۔ ’’ سلام وَدَاع ‘‘یہ گھر سے رخصت ہوتے وقت ہے۔یہاں (یعنی اس حدیث میں ) سلام تحیت مراد ہے ، یہ کلام سے پہلے چاہیے تاکہ تحیت باقی رہے جیسے تحیۃ المسجد کے نفل کہ وہ بیٹھنے سے پہلے پڑھے جائیں۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۶، ص۳۳۱)
حضرتِ سیِّدُنا عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے دور ہو جاتا ہے۔
(شعب الإیمان، باب في مقاربۃ اھل الدین۔۔۔ الخ، الحدیث: ۸۷۸۶، ج۶، ص۴۳۳)
جو شخص مسلمانوں کو سلام کر لیا کرے وہ ان شآء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مُتَکَبِّر نہ ہو گا اس کے دل میں عجز ونیاز ہو گا یہ عمل مُجَرَّبہے۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۶، ص۳۴۶)
حضرتِ مولانا سید ایوب علی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کا بیان ہے کہ ’’کوہ ِبھوالی سے میری طلبی فرمائی جاتی ہے ، میں بہ ہمراہی شہزادہ اصغرحضرت مولانامولوی شاہ محمد مصطفی رضاخاں صاحب مدّظلّہ الاقدس، بعد ِ مغرب وہاں پہنچتا ہوں ، شہزادہ ممدوح اندر مکان میں جاتے ہوئے یہ فرماتے ہیں’’ابھی حضورکو آپ کے آنے کی اطلاع کرتاہوں۔ ‘‘ مگر باوجود اس آگاہی کے کہ حضور (یعنی امامِ اہلسنّت مولانا احمدرضاخان عَلَیْہ رَحمَۃ الرّحْمٰن) تشریف لانے والے ہیں ، تقدیمِ سلام (یعنی سلام میں پہل) سرکارہی فرماتے ہیں، اس وقت دیکھتا ہوں کہ حضوربالکل میرے پاس جلوہ فرما ہیں۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، ج۱، ص۹۶)
حضرتِ سیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی مسجد میں ہنسناقبر میں اندھیرا (لاتا) ہے۔
(الفردوس بمأ ثور الخطاب، الحدیث ۳۷۰۶، ج۲، ص۴۱)
خیال رہے کہ مسکرانا اچھی چیز ہے (اور) قہقہ بری چیز ،تَبَسُّم رحمت عالم ، نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عادت کریمہ تھی۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۷، ص۱۴)
جسکی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں
اس تبسُّم کی عادت پہ لاکھوں سلام
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اﷲ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی قَہْقَہَہ شیطان کی طرف سے ہے اور مسکرانا اﷲعَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے۔ (المعجم الصغیر، للطبراني، الحدیث ۱۰۵۷، ج۲، ص۲۱۸)
قہقہہ سے مراد آواز کے ساتھ ہنسناہے۔ شیطان اسے پسند کرتا ہے اور اس پر سوار ہو جاتا ہے۔ جبکہتَبَسُّم سے مراد بغیر آواز کے تھوڑی مقدارمیں ہنسنا ہے۔
(فیض القدیر، تحت الحدیث۶۱۹۶، ج۴، ص۷۰۶)
اُمُّ المومنین حضرت سیِّدُتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا روایت کرتی ہیں کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی مِسواک میں منہ کی پاکیزگی اور اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی خوشنودی کا سبب ہے۔
(سنن النسائي، أبواب الطہارۃ وسننھا، باب السواک، ج۱، ص۱۰)
شریعت میں مِسواک سے مُراد وہ لکڑی ہے جس سے دانت صاف کئے جائیں ۔سنّت یہ ہے کہ یہ کسی پھول یا پھلدار درخت کی نہ ہو کڑوے درخت کی ہو ۔موٹائی چھنگلی کے برابر ہو ، لمبائی بَالِشْت سے زیادہ نہ ہو ۔ دانتوں کی چوڑائی میں کی جائے نہ کہ لمبائی میں ۔بے دانت والے اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں مسوڑھوں پر انگلی پھیر لیا کریں ۔ مسواک اتنے مقام پر سنّت ہے : وضو میں ، قراٰن شریف پڑھتے وقت ، دانت پیلے ہونے پر ، بھوک یا دیر تک خاموشی یا بے خوابی کی وجہ سے منہ سے بدبو آنے پر۔ (مراٰۃ المناجیح ، کتاب الطہارۃ، باب السواک، ج۱، ص۲۷۵ )
حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی باجماعت نمازادا کرنا، تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
(صحیح البخاري، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، الحدیث ۶۴۵، ج۱، ص۲۳۲)
عام روایات میں یہی ہے کہ نماز باجماعت بہ نسبت تنہا کے ۲۵ درجے زائد ہے ۔مگر بعض روایتوں میں ستائیس درجے بھی آیا ہے۔بلکہ ایک روایت میں ۳۶ درجے بھی وارد ہے۔ بعض میں۵۰ بھی۔علماء نے اس کی مختلف تو جیہات کی ہیں۔سب میں عمدہ توجیہ یہ ہے کہ یہ نمازی اور وقت اور حالت کے اعتبار سے مختلف ہے۔
(نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج۲، ص۱۷۸)
امام اعظم ابو حنیفہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے شاگرد حضرتِ سیِّدُنا محمد بن سماعہ رَحْمَۃُ للہ تعالیٰ عَلَیہ نے ایک سو تیس برس کی عمر پائی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ روزانہ دو سو رکعت نفل پڑھا کرتے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: مسلسل 40 برس تک میری ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی تکبیر اُوْلیٰ فوت نہیں ہوئی ۔جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا۔ اس دن ایک وقت کی جماعت چھوٹ گئی تو میں نے اس خیال سے کہ جماعت کی نماز کا ۲۵ گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ اس نماز کو میں نے اکیلے ۲۵ مرتبہ پڑھا۔ پھر مجھے کچھ غنودگی آگئی۔ تو کسی نے خواب میں آکر کہا، ۲۵ نمازیں تو تم نے پڑھ لیں مگر فرشتوں کی ’’ اٰمین ‘‘کا کیا کرو گے؟
(تہذیب التہذیب، حرف المیم، من اسمہ محمد، الرقم۶۱۷۲، ج۷، ص۱۹۱)
‘‘ کہے تو تم لوگ ’’اٰمیۡن‘‘کہو، جس کی’’ اٰمِیۡن ‘‘ فرشتوں کی’’ اٰمِین ‘‘کے ساتھ ہوتی ہے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، الحدیث ۴۴۷۵، ج۳، ص۱۶۴)
حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
(صحیح البخاري، کتاب الآداب، باب مایکرہ من النمیمۃ، الحدیث ۶۰۵۶، ج۴، ص۱۱۵)
قَـتَّات وہ شخص ہے جو دو مخالفو ں کی باتیں چھپ کر سُنے اور پھر انہیں زیادہ لڑانے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچائے۔ اگر یہ شخص ایمان پر مرا تو جنت میں اولاً نہ جائے گا بعد میں جائے تو جائے اگر کفر پر مرا تو کبھی وہاں نہ جائے گا۔ (مسلم شریف میں نَمّام کا لفظ استعمال ہوا ہے) جو دو طرفہ جھوٹی باتیں لگا کر صلح کرادے وہ نمام نہیں مصلح ہے نمام وہ ہے جو لڑائی وفساد کیلئے یہ حرکت کرے۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۶، ص۴۵۲)
افسوس! اکثرلوگوں کی گفتگو میں آج کل غیبت و چغلی کا سلسلہ بَہُت زیادہ پایا جاتا ہے۔ دوستوں کی بیٹھک ہو یا مذہبی اجتماع کے بعد جمگھٹ، شادی کی تقریب ہو یا تعزِیت کی نشست، کسی سے مُلاقات ہو یا فون پربات، چند منٹ بھی اگر کسی سے گفتگوکی صورت بنے اور دینی معلومات رکھنے والا کوئی حسّاس فرد اگر اُس گفتگو کی ’’ تَشْخِیص ‘‘ کرے تو شاید اکثر مجالس میں دیگر گناہوں بھرے الفاظ کے ساتھ ساتھ وہ درجنوں ’’ چُغلیاں ‘‘ بھی ثابِت کردے۔ ہائے! ہائے! ہمارا کیا بنے گا! ! ! ایک بار پھر اِس حدیثِ پاک پر غور کر لیجئے: ’’ چُغل خور جنّت میں نہیں جائے گا۔ ‘‘ کاش! ہمیں حقیقی معنوں میں زَبان کا قفلِ مدینہ نصیب ہو جائے، کاش! ضَرورت کے سوا کوئی لفظ زَبان سے نہ نکلے، زیادہ بولنے والے اور دُنیوی دوستوں کے جُھرمٹ میں رہنے والے کا غیبت اور بالخصوص چغلی سے بچنا بے حد دشوار ہے۔ آہ! آہ! آہ! حدیثِ پاک میں ہے: ’’جس شخص کی گفتگو زیادہ ہو اس کی غَلَطیاں بھی زِیادہ ہوتی ہیں اورجس کی غَلَطیاں زیادہ ہوں اُس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں اور جس کے گناہ زیادہ ہوں وہ جہنَّم کے زیادہ لائق ہے۔ ‘‘
(حلیۃ الاولیاء ج۳ ص۸۷۔۸۸ رقم ۳۲۷۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت) (بُرے خاتمے کے اسباب، ص۹)
چُغلی سے توبہ
حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیزرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں مروی ہے کہ ایک شخص ان کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کسی دوسرے کے بارے میں کوئی بات ذکر کی۔ آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا اگر تم چاہو تو ہم تمہارے معاملے میں غور کریں اگر تم جھوٹے ہوئے تو اس آیت کے مِصداق ہو گے۔
ترجمۂ کنزالایمان : اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو ۔
اور اگر تم سچے ہو ئے تو اس آیت کے مصداق ہو جاؤ گے۔
ترجمۂ کنزالایمان : بہت طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا
اور اگر تم چاہو تو ہم تمہیں معاف کر دیں۔ اس نے عرض کی: امیر المؤمنین ! معاف کر دیجئے آئندہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، ج۳، ص۱۹۳ )
حضرتِ سیِّدُنا حماد بن سلمہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے غلام بیچا اور خریدار سے کہا :’’ اس میں چغل خوری کے علاوہ کوئی عیب نہیں۔‘‘ اس نے کہا :’’ مجھے منظور ہے۔ ‘‘اور اس غلام کو خرید لیا ۔غلام چند دن تو خاموش رہا پھر اپنے مالک کی بیوی سے کہنے لگا :’’میرا آقا تجھے پسند نہیں کرتا اور دوسری عورت لانا چاہتا ہے، جب تمہارا خاوند سو رہا ہو تو استرے کے ساتھ اس کی گدی کے چند بال مونڈ لینا تاکہ میں کوئی منتر کروں ، اس طرح وہ تم سے محبت کرنے لگے گا ۔ ‘‘ اور دوسری طرف اس کے شوہر سے جاکر کہا : تمہاری بیوی نے کسی کو دوست بنا رکھا ہے اور تجھے قتل کرنا چاہتی ہے ، تم جھوٹ موٹ کے سو جانا تاکہ تمہیں حقیقتِ حال معلوم ہو جائے ۔ ‘‘وہ شخص بَنَاوَٹی طور پر سو گیا تو عورت استرا لے کر آئی۔وہ شخص سمجھاکہ وہ اسے قتل کرنے کے لئے آئی ہے ۔چنانچہ وہ اٹھا اور اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔جب عورت کے گھر والے آئے تو انہوں نے اسے قتل کر دیا اور اس طرح اس چغل خور غلام کی وجہ سے دو قبیلوں کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی۔
(احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، ج۳، ص۱۹۵ )
حضرتِ سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اﷲ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی روزی بندے کو ایسے تلاش کرتی ہے جیسے اسے اس کی موت تلاش کرتی ہے۔
(حلیۃ الاولیاء، رقم ۷۹۰۸، ج۶، ص۸۹)
مقصد یہ ہے کہ موت کو تم تلاش کرو یا نہ کرو بہرحال تمہیں پہنچے گی یونہی تم رزق کو تلاش کرو یا نہ کرو ضرور پہنچے گا ۔ہاں !رزق کی تلاش سنّت ہے (اور) موت کی تلاش ممنوع،مگر ہیں دونوں یقینی۔ ( مرأۃ المناجیح، ج۷، ص۱۲۶)
حضرتِ سیِّدُنا ابو ابراہیم یمانی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الغَنِی فرماتے ہیں: ’ایک مرتبہ ہم چند رفقاء حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللہِ الاَعْظم کی ہمراہی میں سمند رکے قریب ایک وادی کی طر ف گئے۔ ہم سمند ر کے کنارے کنارے چل رہے تھے کہ راستے میں ایک پہاڑ آیا جسے جبل ’’ کفر فیر ‘‘کہتے ہیں۔ وہاں ہم نے کچھ دیر قیام کیا اور پھر سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں ایک گھنا جنگل آیا جس میں بکثر ت خشک درخت اور خشک جھاڑیاں تھیں۔ شام قریب تھی، سردیوں کا موسم تھا۔ ہم نے حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم عَلَیہِ رَحْمَۃ اللہِ الْاَکْرَم کی بارگاہ میں عرض کی :
حضور ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو آج رات ہم ساحل سمندر پر گزار لیتے ہیں۔ یہاں اس قریبی جنگل میں خشک لکڑیاں بہت ہیں۔ ہم لکڑیاں جمع کر کے آگ روشن کرلیں گے اس طر ح ہم سردی اور درندوں وغیرہ سے محفوظ رہیں گے ۔ ‘‘
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔ ‘‘ چنانچہ ہمارے کچھ دوستوں نے جنگل سے خشک لکڑیاں اکٹھی کیں اور ایک شخص کو آگ لینے کے لئے ایک قریبی قلعے کی طر ف بھیج دیا ۔ جب وہ آگ لے کرآیاتو ہم نے جمع شدہ لکڑیوں میں آگ لگا دی اور سب آگ کے اِرد گر د بیٹھ گئے اور ہم نے کھانے کے لئے روٹیاں نکال لیں۔ اچانک ہم میں سے ایک شخص نے کہا : ’’ دیکھو ان لکڑیوں سے کیسے اَنگارے بن گئے ہیں ، اے کاش! ہمارے پاس گو شت ہوتا تو ہم اسے ان اَنگاروں پر بھون لیتے ۔ ‘‘ حضرت سیِّدُنا ابراہیم ابن ادہم عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللہِ الاَعْظم نے اس کی یہ بات سن لی اورفرمانے لگے : ’’ ہمارا پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ اس بات پر قادرہے کہ تمہیں اس جنگل میں تا زہ گو شت کھلائے ۔ ‘‘
ابھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ بات فرما ہی رہے تھے کہ اچانک ایک طر ف سے شیر نمودار ہوا جو ایک فربہ ہرن کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ ہر ن کا رُخ ہماری ہی طرف تھا۔ جب ہرن ہم سے کچھ فاصلے پر رہ گیا تو شیر نے اس پر چھلانگ لگائی اوراس کی گردن پرشد ید حملہ کیا جس سے وہ تڑپنے لگا ۔یہ دیکھ کر حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم اُٹھے اور اس ہرن کی طرف لپکے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو آتا دیکھ کر شیر ہرن کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ یہ رزق اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمارے لئے بھیجا ہے۔ چنانچہ ہم نے ہرن کو ذبح کیااور اس کا گوشت انگاروں پر بھون بھون کر کھاتے رہے اور شیر دور بیٹھا ہمیں دیکھتا رہا۔
(عیون الحکایات، الحکایۃ الحادیۃ والسبعون بعد المائۃ، ص۱۸۲ )
{اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین }
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم}
حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی حیا ایمان سے ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان عدد شعب الإیمان۔۔۔ الخ، الحدیث۳۶، ص۴۰)
شرم وحیاء ایمان کا رُکنِ اعلیٰ ہے۔ دنیا والوں سے حیا دنیاوی برائیوں سے روک دیتی ہے۔ دین والوں سے حیا دینی برائیوں سے روک دیتی ہے۔ اللہ رسول سے شرم وحیا تمام بدعقیدگیوں بدعملیوں سے بچالیتی ہے۔ ایمان کی عمارت اسی شرم وحیا پر قائم ہے ۔درختِ ایمان کی جڑ مؤمن کے دل میں رہتی ہے (جبکہ) اس کی شاخیں جنت میں ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۶، ص۶۴۱)
حضرتِ سیِّدُنا ابوقَتَادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی قوم کو پانی پلانے والا ، سب سے آخر میں پیتا ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ۔۔۔ الخ، الحدیث۶۸۱، ص۳۴۴)
قانون یہ ہے کہ پلانے والا پیچھے پئے، کھلانے والا پیچھے کھائے ۔ہم ہیں پلانے والے اس لئے ہم تمہارے بعد پئیں گے۔خیال رہے کہ رب تعالیٰ کی طرف سے قاسم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تھے اور تاقیامت ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح، ج۸، ص۲۲۴)
اُمُّ المومِنین حضرت سیدتناعائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا مہینہ ہے۔
(الجامع الصغیر، للسیوطی، الحدیث ۴۸۸۹، ص۳۰۱)
رحمت عالم ، نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شعبان کو اس لئے اپنا مہینہ فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے حالانکہ یہ روزے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر واجب نہیں تھے۔اور رمضان کو اس لئے اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ فرمایا کہ اس نے اس مہینے کے روزے مسلمانوں پر فرض کئے ہیں۔
(فیض القدیر، تحت الحدیث۴۸۸۹، ج۴، ص۲۱۳)
حضرتِ سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی فتنہ سورہا ہے ، اس کے جگانے والے پر اﷲعَزَّوَجَلَّ کی لعنت۔
(الجامع الصغیر، الحدیث ۵۹۷۵، ص۳۷۰)
کسی دینی فائدے کے بغیرلوگوں کواضطراب، اختلاف، مصیبت اور آزمائش میں مبتلاکرکے نظام زندگی کوبگاڑدینا ’’ فتنہ‘‘کہلاتا ہے۔ (الحدیقہ الندیۃ ج ۲، ص۱۴۶) لہٰذا! ہروہ چیزجومسلمانوں کے درمیان فتنے ، شر، عداوت اور بُغْض کاباعث بنے ، ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔فتنہ کوقرآن پاک میں قتل سے زیادہ سخت کہاگیاہے، اگراسی بات پرغورکرلیا جائے توفتنے سے بچنے کے لئے کافی ہے۔
چنانچہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشادفرماتاہے:
ترجمہ کنزالایمان : اوران کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے۔ (پ ۲، البقرۃ: ۱۹۱ )
امام بیضاوی علیہ رَحْمَۃُاللہِ الوَالی فتنے کے قتل سے زیادہ سخت وبراہونے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ چونکہ قتل کے مقابلے میں فتنے کی تکلیف زیادہ سخت اوراس کارنج واَلَم زیادہ دیرتک قائم رہتاہے اسی لئے اس کوقتل سے زیادہ سخت فرمایاگیا۔ ‘‘ (الحدیقۃ الندیۃ ، ج۲، ص۱۵۴)
حضرتِ سیِّدُنا ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی سب سے بہترعمل اﷲ عَزَّوَجَلَّ کے لیے محبت کرنا اوراﷲ عَزَّوَجَلَّ کے لیے دُشمنی کرنا ہے۔
(سنن أبي داود، کتاب السنۃ، باب مجانبۃ اھل الأھواء ، الحدیث۴۵۹۹، ج۴، ص۲۶۴)
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے محبت کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے اس لئے محبت کی جائے کہ وہ دیندار ہے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے عداوت کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے عداوت ہو تو اس بنا پر ہو کہ وہ دین کا دشمن ہے یا دیندار نہیں۔ (نزھۃ القاری، ج۱، ص۲۹۵) امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں اگر کوئی شخص باورچی سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ اس سے اچھا کھانا پکواکر فقراء کو بانٹے تو یہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے محبت ہے اور اگر عالم دین سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ اس سے علم دین سیکھ کر دنیا کمائے تو یہ دنیا کے لئے محبت ہے۔ (مرأۃ المناجیح، ج۱، ص۵۴)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رحمتِ عالم ، نورِمجسم ، شہنشاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ عالیشان ہے: ’’ یہ بات ایمان سے ہے کہ ایک شخص دوسرے سے فقط اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے محبت کرے اس میں دیئے جانے والے مال کا دَخْل نہ ہوتوایسی محبت ایمان (کاحصہ) ہے ۔ ‘‘ (المعجم الاوسط ، رقم الحدیث۷۲۱۴، ج۵، ص۲۴۵)
امام نووی عَلَیْہِ رَحْمۃُاللہِ الوَالی فرماتے ہیں :’’ اللّٰہ ورسول عزوجل و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت میں زندہ اورانتقال کرجانے والے اولیاء وصالحین رحم ہم اللہ تعالیٰ کی محبت بھی شامل ہے اوراللّٰہ ورسول عزوجل و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی افضل ترین محبت یہ ہے ان کے احکام پرعمل اورنواہی سے اجتناب کیاجائے ۔ (شرح مسلم للنووی، کتاب البر والصلہ، باب المرء مع من احب، ج۲ص۳۳۱)
الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے اکابرین اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالْـبُغْضُ فِی اللّٰہِکی چلتی پھرتی تصویر تھے ۔چنانچہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگِ اُحد میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے روز بدر اپنے بیٹے عبدالرحمن کو مُبَارَزَت (یعنی مقابلے) کیلئے طلب کیا لیکن رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اس جنگ کی اجازت نہ دی اور سیِّدُنامعصب بن عمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھائی عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا اورحضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو روز بدر قتل کیا اور حضرت علی بن ابی طالب و حمزہ و ابوعبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہم نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو بدر میں قتل کیا جوان کے رشتہ دار تھے خدا اور رسول پر ایمان لانے والوں کو قرابت اور رشتہ داری کا کیا پاس۔
(تفسیر خزائن العرفان ، المجادلہ، تحت الاٰیۃ۲۲)
حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، اﷲعَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی جو کوئی جان بوجھ کرایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے، اس کا نا م جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جائے گا جس سے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔
(حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۰۵۹۰، ج۷، ص۲۹۹)
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے جہنمیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
ترجمۂ کنز الایمان: تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی وہ بولے ہم نماز نہ پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ فکریں کرتے تھے۔
حضرتِ سیِّدُنا ابن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میری آنکھوں کی سیاہی باقی رہنے کے باوجود میری بینائی جاتی رہی تو مجھ سے کہا گیا : ’’ ہم آپ کا علاج کرتے ہیں کیا آپ کچھ دن نماز چھوڑ سکتے ہیں؟ ‘‘ تو میں نے کہا : ’’ نہیں، کیونکہ دوجہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے : ’’ جس نے نماز چھوڑی تو وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب فرمائے گا۔ ‘‘
( مجمع الزوائد، کتاب الصلاۃ، باب فی تارک الصلاۃ، الحدیث: ۱۶۳۲، ج ۲، ص ۲۶)